Facebook

Subscribe Us

test

محبت

                                                    محبت

وہ ابھی جنید کو ناشتا دے کر فارغ ہوئی تھی کہ رضیہ بیگم نے اسے آواز لگائی۔ امیہ ذرا مجھے بھی ایک کپ چائے دینا چھا امی! سامیہ نے جلدی سے چولہے پر سے تو ا اتارا اور تیلی چولہے پر چڑھائی اور کپ میں دودھ نکالنے لگی۔ چینی ایک چمچہ اسے یاد تھا۔ رضیہ بیگم نے پہلے دن ہی باور کرا دیا تھا کہ وہ ایک چمچہ چینی لینے کی عادی ہے۔

مسکراہٹ پھیل گئی۔ منہ تو کچھ نہ بولیس پر خدا جانے کیا گنگناتی لوٹ گئیں۔ گرما گرم بھاپ اڑاتی چائے کا کپ جب ان کی نظروں کے سامنے آیا تو پھر

مسکراہٹ کھل اٹھی۔ جیتی رہو۔" یہ پہلی سند تھی رضیہ بیگم کی جانب سے جو تعریفا اسے عطا ہوئی تھی۔

جنید اور اس کی شادی یکی ار بلی تھی۔ رضیہ بیگم نے اسے کسی تقریب میں دیکھ کر پسند کیا تھا اور کسی . جاننے والے کے توسط سے ان کے گھر تک آئیں۔ رشتہ خاصا معقول تھا۔ دو بہنیں اور ایک بھائی نہیں بیاہی ہوئی تھیں لہذا گھر میں اب ایک بہو کی ضرورت تھی۔ والد کا کچھ عرصے پہلے انتقال ہوا تھا۔ گو گھر میں ایسا کچھ بھی نہ تھا کہ جس میں جان کھپائی جاتی لیکن رضیہ بیگم اپنی آسان گھیر نہ تھیں ۔ گھر کے سارے کام پہلے بیٹیوں کے ساتھ مل کر انجام پاتے تھے پھر ان کی شادیاں کر دی گئیں اور رضیہ بیگم نے یہ ذمہ داری اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھالی۔ مصیبت یہ تھی کہ اب شامیہ کو یہ ذمہ داری ان کے ساتھ شیئر کرنا تھی ۔ صبح کے ناشتے کے بعد برتن دھو کر جھاڑو دینے کا مرحلہ تک تو ٹھیک تھا۔

ابھی اسے بیاہ کر آئے ہوئے مہینہ بھر بھی نہ ہوا تھا کہ رضیہ بیگم نے اپنی خرابی طبیعت کا بہانہ بنا کر کھیر پر ہاتھ لگوا کر گھر کے کام کاج کرنے کا اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا، آج اس کا دوسرا دن تھا۔ جنید کے آملیٹ میں ہری مرچیں اور پیاز کا تناسب تو وہ دیکھ چکی تھی البتہ نمک میں اسے شک ہی

تھا کہ اگر زیادہ ہو گیا تو شامت اور کم ہواتو ... انے بیٹا! میں تو تازہ چائے پیتی ہوں۔ یہ تمہاری باسی چائے تو میرے حلق سے بھی نہ اترے گی ۔ رضیہ بیگم اس کے سامنے کھڑی ایک نیا حکم نامہ جاری کر رہی تھیں ۔ پر امی ! کل تو دل سے تو بہت کچھ اٹھا پر لب خاموش ہی رہے۔ سامیہ بیٹا ! بھی اپنی ساس کے سامنے اف نہ کرنا ۔ پھر دیکھنا کہ چند ہی مہینوں میں بلکہ دنوں میں

بیٹا! دوپہر کو کھانے کے لیے کیا ہونا چاہیے۔ رضیہ بیگم کے استفسار پر وہ چکرا گئی وہ تمہارے گن گاتی نظر آئیں گی۔ امی کا مقولہ تھی۔ ہم دوہی تو ہیں ، تم اپنی تھکن اتار لو۔ پھر باورچی خانے چلی جانا ، چاول چن کر رکھ دیے سامیہ نے فورا مسکراتے ہوئے کیتلی چولہے میں ڈال بھی رکھی ہے۔ کھچڑی پک لیتا' ہم دونوں کو کافی سے نیچے اتاری اور اسٹیل کی چھوٹی پتیلی میں جائے گا ہوں گے ۔ چٹنی میں نہیں لوں کی بلکہ تم گرائنڈر میں تازہ پانی چڑھایا یہ دیکھ کر رضیہ بیگم کے چہرے پر ہیں لیتا۔ کون سے ہاتھی گھوڑے لگتے ہیں۔“
طلا

سکتے۔ جی امی " سامیہ نے اپنے چکراتے ہوئے سر کو تھامتے ہوئے کہا تھا۔ اسے سخت حیرت تھی کہ جنید ایک سرکاری ادارے میں اچھے گریڈ پر فائز تھے نہ گیا۔ ظا ہر گھر میں کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہ تھی پھر اس قدر کی کنجوسی کیوں برتی جارہی ہے کیا ایک ملازم نہیں رکھ آ رہی۔"

کچھ دیر جنید ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے رضیہ بیگم اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں۔ اب اس سے رہا "جنید ! مجھے تھکاوٹ کی وجہ سے نیند نہیں

ارے تم مجھے پہلے ہی بتا دیتیں۔ میں تمہارے ہاتھ پیر دیا دیتا ہوں ۔ جنید فورا اٹھ کھڑے ہوئے تب ہی رضیہ بیگم ہاتھ میں کچھ لیے آئیں۔ رہنے دو بیٹا انہیں ابھی اپنی بچی کی تھکاوٹ دور کرتی ہوں ۔ انہوں نے اتنے پیار سے کہا کہ

بھئی میں نے تو اپنی بچیوں کو ایسی تربیت کی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بھی سارے کام خود کرتی ہیں ۔ آج کی غریب سے غریب گھرانوں میں بھی یاسیوں کو رکھنے کا رواج ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ جسے تھوڑا کام سر پر پڑا نہیں اور تھکاوٹ کا شکار ہو گئے۔ شادی سے پہلے رضیہ بیگم کی گفتگو جو وہ بھی امی سے کرا کرتی تھیں۔ حرف بہ حرف سچی محسوس ہوتی

سامیہ سے کچھ بولا ہی نہ گیا۔ رضیہ بیگم نے تیل کی بوتل کھولی اور آہستہ آہستہ اس کے سر پر چھپی کرنے لگیں۔ اسے مزا آنے لگا آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ کچھ دیر اسی طرح گزری جنید دلچسپ نظروں سے ساس بہو کے درمیان لگاوٹ دیکھ رہا تھا۔ اب کچھ آرام ملا ہے بیٹا! رضیہ بیگم نے پیار پوچھا۔

اب اوکھلی میں پر دیا تو موصلی سے کیا ڈر کھچڑی اچھی بن گئی اور رضیہ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی لیکن وہ خود بہت تھک گئی یا میا شام کی ہنڈیا میں کرلوں گی بیٹا ! تم بہت تھک گئی ہو شاید شاید نہیں یقیناً دل سے ابھرا اور لب تھی۔

جی امی! آپ کے ہاتھ میں تو جادو ہے۔ اس نے پیار سے ان کے ہاتھ تھام لیے۔ ”بیٹا! یہ جادو ڈا بر آملہ ہیئر آئل کا ہے۔ میں برسوں سے اسے ہی استعمال کرتی آئی ہوں ۔ میری بچیاں بھی دن بھر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے ڈابر ہیئر آئل سے چھپی کرتی ہیں اور آج سے تم بھی استعمال کرو۔ اس سے سکون ملتا اور تھکاوٹ فوراً رفو چکر ہو جاتی ہے۔" رضیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے ڈابر آملہ ہئیر

مسکراتے رہے تھے۔ شام کو جنید آئے اور سب نے مل کر ساتھ چائے پی اس کے چہرے کے تھکن نے جنید کو بہت کچھ سمجھا دیا تھا رات رضیہ بیگم نے کوفتے بنائے تھے جو اسے بہت پسند تھے لیکن تھکان نے ساری بھوک ختم کر دی

بھی۔ رنے کیا ہوا بیٹا ! کوفتے اچھے نہیں بنے آئل کی بوتل اپنی بہو کے ہاتھ میں تھمائی اور اپنے کیا۔ رضیہ بیگم نے دلا ر سے پوچھا۔ نین امی! اچھے ہیں ۔ اس نے بمشکل مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

ان کے جانے کے بعد سامیہ نے لیک کر گنگنایا ڈا بر آملہ ہیئر آئل چیپی کی تو چین آیا۔" کمرے کی جانب چل دیں۔

لیکن تمہاری شکل پر تو جیسے بارہ بج رہے ہیں ۔ جنید خاموش نہ رہ سکے تھے۔ رضیہ بیگم بیٹے کی بات پر شرمندہ ہی ہوگئی تھیں ۔

No comments:

Main Slider

https://www.facebook.com/home.php
Theme images by suprun. Powered by Blogger.